نشاط 24 برس کی ہیں اور اسلام آباد سے تعلق رکھتی ہیں۔ وہ ماہواری کے لیے روایتی پیڈز کی جگہ مینسٹرل کپ استعمال کرتی ہیں۔
نشاط بتاتی ہیں کہ جب اُنھوں نے پڑھا کہ ایک پیڈ کو مکمل طور پر گل سڑ کر ختم ہونے میں ایک ہزار سال لگتے ہیں تو اُنھیں پیڈ استعمال کرتے ہوئے یہ پریشانی ہونے لگی تھی کہ وہ ماحول میں کچرے کا سبب بن رہی ہیں۔
پاکستان سمیت دنیا بھر میں خواتین ماہواری کے لیے جو روایتی ٹیمپون اور پیڈز استعمال کرتی ہیں، ان میں استر اور پیکیجنگ سمیت 90 فیصد تک مٹیریل پلاسٹک ہوتا ہے۔
پلاسٹک سے بنی یہ حیض کی اشیا نہ صرف جلد کو نقصان پہنچا سکتی ہیں بلکہ ماحولیاتی آلودگی میں بھی اضافہ کرتی ہیں۔
نشاط کہتی ہیں کہ ’جتنا بھی فاضل مادہ ہوتا ہے یا تو وہ لینڈ فلز میں چلا جاتا ہے یا پھر اس کو جلا دیا جاتا ہے، پاکستان میں کچرے کو ٹھکانے لگانے کے کوئی خاص انتظامات نہیں ہیں۔‘
نشاط نے کہا کہ ’اس سب کو مد نظر رکھتے ہوئے مجھے لگا کہ ماہواری کو صحیح طریقے سے لے چلنے کا یہی راستہ ہے کہ مینسٹرل کپ استعمال کیا جائے۔‘
مینسٹرل کپ سلیکون کا ایک لچکدار کپ ہوتا ہے جس کو اندام نہانی کے اندر رکھا جا سکتا ہے۔
’شروع میں استعمال سے پہلے آپ کو اسے ابالنا پڑتا ہے، اس کے بعد اسے پانچ یا سات دن کے لیے استعمال کر سکتے ہیں اور ایک مینسٹروئل کپ کو 10 سال تک استعمال کیا جا سکتا ہے، جس کی وجہ سے مجھے یہ بہت ہی سستا لگا کیونکہ پیڈز بہت مہنگے ہوتے ہیں جو کہ ہمیں ہر مہینے خریدنے پڑتے ہیں۔‘
وہ کہتی ہیں کہ پیڈز کو ہمارے معاشرے میں ’لگژری آئٹمز‘ سمجھا جاتا ہے نا کہ روز مرّہ کی ضروریات، جس کی وجہ سے وہ کافی مہنگے ہوتے ہیں۔
’پیڈز کی بدبو مجھے بہت بُری لگتی تھی‘
نشاط نے بتایا کہ انھیں پیڈز کو استعمال کرنا اس لیے بھی پسند نہیں تھا کیونکہ ان کو پیڈز میں بدبو بہت بری لگتی تھی جو کہ ان کے لیے ایک پریشان کن بات تھی۔ ان کے مطابق پیڈز کی بدبو ان میں ایک غیر یقینی کی صورتحال کا سبب بنتی تھی۔ ’بہت گندا سا احساس ہوتا تھا۔‘
’جب میں چھوٹی تھی اس وقت میں سکول سے چھٹی کر لیا کرتی تھی کیونکہ مجھے ڈر لگتا تھا کہ میرے کپڑے خراب ہو جائیں گے، تو میں نے اس سب سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے مینسٹرل کپ استعمال کرنا شروع کیا۔‘
وہ کہتی ہیں کہ اُن کے پاس دو آپشنز موجود تھے، ایک مینسٹرل کپ اور دوسرے وہ پیڈز جن کو بار بار دھو کر استعمال کیا جا سکتا ہو۔ ’مگر میں پیڈز والے انتخاب سے بالکل ہی دور جانا چاہتی تھی، اس وجہ سے مجھے لگا کہ مینسٹرل کپ کا انتخاب میرے لیے بہترین رہے گا۔‘
نشاط کے مطابق جب اُنھوں نے اسے پہلی بار استعمال کیا اور کچھ دیر کے بعد جب میں نے ان کا پیڈز کے ساتھ موازنہ کیا تو اُنھیں لگا کہ یہ اُن کے لیے بہت بہترین ہے کیونکہ پیڈز اُنھیں بار بار بدلنے پڑتے تھے اور مینسٹرل کپ 12 گھنٹے تک استعمال کیا جا سکتا۔ ’اس کے علاوہ جب آپ کو ضرورت محسوس ہو تو اسے نکال کر خون کو فلش میں بہا دیں۔‘
’یہ میرے لیے بہت بڑی کامیابی تھی اور اب تو اکثر میں بھول بھی جاتی ہوں کے میرے ماہواری کے دن چل رہے ہیں۔ مجھے اتنا آرام دہ لگتا ہے کہ میں اس کے ساتھ نہا سکتی ہوں، بھاگ سکتی ہوں، جم جا سکتی ہوں، مجھے اب اس کو استعمال کرتے ہوئے ایک سال دو مہینے ہو چکے ہیں اور میں مطمئن ہوں۔‘
اپنے دوستوں سے بھی میں یہی کہتی ہوں کہ وہ اس کا استعمال کریں کیونکہ ایک تو یہ ماحولیاتی آلودگی کا سبب نہیں بنتا، دوسرا یہ کہ بہت سستا ہے اور تیسرا یہ کہ عورت کی صحت کو متاثر نہیں کرتا۔‘
’ڈر تھا کہ کہیں کنوار پن ضائع نہ ہو جائے‘
نشاط کہتی ہیں کہ شروع میں اُنھیں اس بات کو لے کر تشویش تھی کہ کہیں یہ سچ نہ ہو کہ مینسٹرل کپ سے کہیں کنوارہ پن ضائع نہ ہو جائے، مگر پھر اُنھوں نے بہت سے گائناکالوجسٹس سے رجوع کیا تو ان سب نے اسے لوگوں کا وہم اور غلط فہمی قرار دیا۔
وہ بتاتی ہیں کہ اُن کی امی شروع میں خوفزدہ تھیں، لیکن اب آہستہ آہستہ وہ اس چیز کو تسلیم کر رہی ہیں کہ مینسٹرل کپ پیڈز کے مقابلے میں بہت بہتر ہیں۔
’وہ مجھے دیکھتی ہیں کہ جب میرے ماہواری کے دن چل رہے ہوتے ہیں تو میں کتنا زیادہ کمفرٹ زون میں ہوتی ہوں۔ وہ اب وہ پہلے کی طرح نہیں سوچتیں کہ اس سے کچھ ہو جائے گا حالانکہ ان کو شروع میں ڈر تھا اور مینسٹروئل کپ کو لے کر بہت خدشات تھے۔
نشاط کہتی ہیں کہ پیڈز کے اندر بہت زیادہ بلیچ سمیت بہت سارے کیمیکلز ہوتے ہیں جس کے مسلسل استعمال سے سروائیکل کینسر یا پھر پیشاب کی نالی کا انفیکشن (یو ٹی آئی) ہو سکتا ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ عورت کی اچھی صحت کے ساتھ ساتھ ماحول کا صحتمند ہونا بھی بہت ضروری ہے اور یہ ہر فرد کی ذمہ داری ہے۔ ’ہر عورت کو اس ذمہ داری کو قبول کر کے ایسی ہی اشیاء کا استعمال کرنا چاہیے جو کہ ماحول دوستانہ ہوں اور جس سے کوئی گندگی پیدا نہ ہو کیونکہ یہ سب مل کر ماحولیاتی تبدیلیوں پر اثر انداز ہو رہی ہیں۔‘
’ری یوزیبل پیڈز استعمال کر کے اچھا لگا‘
25 سالہ کائنات حکومتِ پنجاب کے شعبہ تعلقاتِ عامہ میں انٹرن کے طور پر کام کر رہی ہیں اور وہ ’ری یوزیبل پیڈز‘ استعمال کرتی ہیں۔
کائنات نے بتایا کہ ان کو ماہواری سے متعلق کچھ مسائل تھے جس کی وجہ سے انھوں نے گائناکالوجسٹ سے رجوع کیا تو انھوں نے کائنات کو ’ری یوزیبل پیڈز‘ استعمال کرنے کا مشورہ دیا۔
’میری گائناکالوجسٹ کے کہنے پر میں نے جب استعمال کیا تو مجھے کافی اچھا محسوس ہوا کیونکہ نارمل پیڈز کی نسبت مجھے زیادہ آرام دہ اور محسوس ہو رہا تھا اور تب سے میں یہی استعمال کر رہی ہوں۔‘
وہ کہتی ہیں کہ اب اُنھیں یہ استعمال کرتے ہوئے سات سے آٹھ مہینے ہو گئے اور وہ آگے بھی یہی استعمال کرنا چاہیں گی۔
’پہلے میں نے یہاں کافی ڈھونڈے مگر مجھے نہیں ملے جس کی وجہ سے پھر میں نے آن لائن ایمازون سے خریدے اور یہ تقریباً مجھے ایک ہزار روپے میں ملے تھے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ جب وہ یہ پیڈز خرید رہی تھیں تو انھوں نے پیڈز کی تفصیلات پڑھتے ہوئے پڑھا کہ یہ ’ایکو فرینڈلی‘ یعنی ماحول دوست پیڈز ہیں۔ مزید پڑھنے پر انھیں معلوم ہوا کہ یہ پیڈز خالص کپاس کے بنے ہوتے ہیں اور اس کے اندر ایسا مواد استعمال ہوتا ہے جو کہ نا صرف عورتوں کی صحت کے لیے محفوظ ہے، بلکہ ماحول دوست اور کافی سستا بھی ہے۔
کائنات نے مزید بتایا کہ ’جب مجھے یہ پتہ چلا کہ ایک نارمل پیڈ ہمارے ماحولیاتی آلودگی کا سبب بنتا ہے تو مجھے لگا کہ ہمیں ایسے طرز زندگی کی طرف منتقل ہونا چاہیے جو کہ ہر لحاظ سے ایک بہتر انتخاب ہو۔ اس کے بعد مجھے یہی لگا کہ میرا انتخاب بہت اچھا ہے۔‘
کائنات نے اپنا تجربہ شیئر کرتے ہوئے یہ بھی بتایا کہ ’جیسے مجھے ماہواری کو لے کر کچھ مسائل تھے اور مجھے ہمیشہ ماہواری کے دوران زخم ہو جاتے تھے جو کہ کافی تکلیف دہ صورتحال ہوتی تھی کیونکہ ایک عام پیڈ میں جو مواد استعمال ہوتا ہے وہ نامیاتی مصنوعات پر مشتمل نہیں ہوتا جس کی وجہ سے وہ جلد کے لیے بھی مفید نہیں ہوتا۔ مگر جب سے میں نے ’ری یوزیبل پیڈ‘ استعمال کرنا شروع کیے تب سے میرا یہ مسئلہ کافی حد تک ختم ہو چکا ہے۔‘
’اب زخموں کا مسئلہ نہیں رہا‘
کائنات نے مزید بتایا کہ ری یوزیبل پیڈز میں وہ میٹیریل استعمال ہوا ہوتا ہے کہ اس میں لیکیج کا مسئلہ نہیں ہوتا۔ آٹھ سے 12 گھنٹے تک ایک ہی پیڈ استعمال کیا جا سکتا ہے اور ان کے مطابق ایک پیکٹ میں تین پیڈز ہوتے ہیں جو کہ وہ ایک پیکٹ ایک سال تک آرام سے استعمال کر سکتی ہیں۔
انھوں نے کہا کہ شروع میں ان کو پیڈز کو دھونا تھوڑا مشکل لگا تھا لیکن ’ان پیڈز کو بھی ویسے ہی دھویا جاتا ہے جیسے ہم عام طور پر کسی کپڑے کو دھوتے ہیں، کوئی خاص طریقہ درکار نہیں ہے۔‘
کائنات کے مطابق دونوں پیڈز کا موازنہ کیا جائے تو ری یوزییبل پیڈز میں جو آرام ہے وہ ایک عام پیڈ میں نہیں ہے کیونکہ اب اُنھیں زخموں کا مسئلہ نہیں ہو رہا تو وہ آرام سے اٹھ، بیٹھ سکتی ہیں۔
’آپ کے دماغ میں یہ نہیں چل رہا ہوتا کہ اب چیک کرنے کی ضرورت ہے یا پیڈ بدلنے کی ضرورت ہے تو اس چیز سے بھی کافی حد تک مجھے سکون ملا ہے
ڈائریکٹر جنرل (سوک مینجمنٹ) شاہ جہان نے مجھے بتایا کہ ماہواری کا فضلہ 90 فیصد خام تیل کے پلاسٹک سے بنا ہوتا ہے جسے گلنے میں 500 سے 800 سال لگتے ہیں۔ ان کے مطابق اس میں کیمیکل اور پلاسٹک ہوتا ہے، جو کہ ماحول اور زمین کے اندر موجود پانی دونوں کو آلودہ کرتے ہیں۔
انھوں نے مزید بتایا کہ فضلے کو مختلف طریقوں سے ٹھکانے لگایا جا سکتا ہے جن میں گہری تدفین، کھاد بنانا، اور جلانا شامل ہیں۔
اُنھوں نے کہا کہ مارکیٹ میں ماحول دوست اور نقصاندہ دونوں طرح کے انسینیریٹر (بھٹیاں) دستیاب ہیں مگر پاکستان میں فضلے کو ٹھکانے لگانے کے جدید طریقہ کار کو اپنایا نہیں جاتا۔
اُنھوں نے کہا کہ پاکستان سالانہ تقریباً چار کروڑ 96 لاکھ ٹن ٹھوس فضلہ پیدا کرتا ہے اور اس میں سالانہ 2.4 فیصد کے حساب سے اضافہ ہوتا ہے۔
ان کے مطابق پاکستان میں ویسٹ مینجمنٹ کے بنیادی ڈھانچے کا فقدان ہے، جس سے سنگین ماحولیاتی مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ ’زیادہ تر میونسپل کچرے کو یا تو جلا دیا جاتا ہے، پھینک دیا جاتا ہے یا خالی جگہوں پر دفن کیا جاتا ہے، جس سے عام آبادی کی صحت اور بہبود کو بھی خطرہ ہے۔
Refrence: BBC Urdu